کِھل کے مُرجھا بھی گئے فصلِ ملاقات کے پُھول
ہم ہی فارغ نہ ہوئے موسمِ تنہائی سے.....🥀
🍁🍂
فضول شے کا بیان چھوڑ دیجئے,___
ہم سے محبتوں کا گمان چھوڑ دیجئے,🖤
چاہت ہے دِل کی بات یہ جبراً کی شے نہیں,🙃
جو چھوڑ دے جہاں پہ, وہیں چھوڑ دیجئے!😌
دل پہ اک قفل ہے کھولیں گے تو مرجائیں گے
اب اگر ہم زخم ٹٹولیں گے تو مر جائیں گے
ہم میں جو زہر ہے وہ زہر اُگلنے دو ہمیں
ہم اگر پیار سے بولیں گے تو مر جائیں گے
بہت شاعری کرتا تھا میں اس کی نتھلی پر--!!
مگر لفظ کم پڑ گئے جب اس نے پائل پہنی--!!🥀
مقامِ افسوس ہو گا کہ تمھارے بعد جب ہم کسی نہ پسندیدہ شخص کو کہیں گے ' ہم تمھارے ہیں '💔
میری چیخ نے اک بھیڑ تو اکٹھی کی۔۔۔!!
لیکن میرا پکارا ہوا شخص نہیں آیا۔۔۔!!
کسی بزدل کی صورت گھر سے یہ باہر نکلتا ہے🖤
مرا غصہ کسی کمزور کے اوپر نکلتا ہے✨
*میری تکمیل میں شامل ہیں کچھ تیرے حصے🥰*
*ہم اگر تجھ سے نہ ملتے تو ___ادھورے رہتے__❤️💫*
تیرا وجود معتبر ہے زندگی میں میری
تیرے علاوہ نہیں آتا کسی پر پیار مجھے ! 🖤
زمــانے بھـــر کے دکھـوں کــو لگا لیــا دل سے
اِس آســـرے پہ کہ اِک غـــــمگسار اپنـــا ہــــے
تُمہارے بعد ہمیں یہ کَبھی لگا ہی نہیں
کہ ہم جَہاں ہیں وَہاں دَستیاب پُورے ہیں ! 🖤
میں کوشش میں ہوں ایک کہانی لکھوں
جس میں محبت محتاج نہ ہو محبوب کی
مثل شفا ہوتے ہیں کچھ لوگ ۔۔۔!!!
بات کریں تو سکون ملتا ہے ۔۔۔ 🍁
اے شگوفوں میں رنگ بھرتے شخص
اِس اُداسی کا حَل تو تُو بھی نہیں
جو تری جستجو میں چھوڑ دیا
اُس کا نعم البدل تو توُ بھی نہیں
دھوپ کے دشت میں شیشے نے ردائیں دی ہیں
زندگی، تُونے ہمیں کیسی سزائیں دی ہیں
اک دعا گو نے رفاقت کی تسلّی کیلئے
عمر بھر ہجر میں جلنے کی سزائیں دی ہیں
*```پھر یُوں ہُوا کہ حسرتیں پیروں میں گِر گئیں*
*پــھر میں نے اُنہیں روند کر قصّہ ختم کِیا🥀🍂*
محسن وہ میری آنکھ سے اوجھل ہؤا جب
سورج تھا میرے سر پہ مگر رات ہو گئی
ورنہ یہ تیز دھوپ تو چبھتی ہمیں بھی ہے
ہم چپ کھڑے ہوئے ہیں کہ تو سائباں میں ہے
میاں...! وہ دن گئے، اب یہ حماقت کون کرتا ہے
وہ کیا کہتے ہیں اس کو... ہاں محبت کون کرتا ہے
کوئی غم سے پریشاں ہے،کوئی جنت کا طالب ہے
غرض سجدے کراتی ہے، عبادت کون کرتا ہے
دنیا کی سب سے خوبصورت چیز نیند ہے جو انسان کو کچھ وقت کے لئے ہر غم ورنج سے آزاد کرا دیتی ہے—
عشق کی کتاب میں لفظ ایمانداری نہ ہو تو ۔۔۔ آخری صفحہ پر جدائی مقدر بن جاتی ہے ! 🖤
اے زلف عنبریں ذرا لہرا کے پھیلنا
اک رات اس چمن میں مرا بھی قیام ہے
ابھی ضد نہ کر دلِ بےخبر
کہ پسِ ہجُومِ ستم گراں
ابھی کون تجھ سے وفا کرے
ابھی کس کو فرصتیں اِس قدر
کہ سمیٹ کر تیری کرچیاں
تیرے حق میں خدا سے دُعا کرے۔
مغرور ہمیں کہتی ہے تو کہتی رہے دنیا
ہم مڑ کے کسی شخص کو دیکھا نہیں کرتے
ہم لوگ تو مے نوش ہیں بدنام ہیں ساغر
پاکیزہ ہیں جو لوگ، وہ کیا کیا نہیں کرتے
غزل
حجاب بن کے وہ میری نظر میں رہتا ہے
مجھی سے پردہ ہے میرے ہی گھر میں رہتا ہے
کبھی کسی کا تجسس کبھی خود اپنی تلاش
عجیب دل ہے ہمیشہ سفر میں رہتا ہے
جسے خیال سے چھوتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
اک ایسا حسن بھی میری نظر میں رہتا ہے
جسے کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا
سکوں کے ساتھ وہی اپنے گھر میں رہتا ہے
جس ایک لمحے سے صدیاں بدلتی جاتی ہیں
وہ ایک لمحہ مسلسل سفر میں رہتا ہے
تمام شہر کو ہے جس پہ ناز اے علیؔ
اک ایسا شخص ہمارے نگر میں رہتا ہے
چندر پرکاش جوہر بجنوری