مجھے تو گلاب بھی کالے پسند ہیں__
ترے فراق کی ہر رات کی قسم، ترے بعد
اگر مرے نہیں ہم لوگ تو جیئے بھی نہیں #شاعری
سُنو___"
"جب تُم مجھے ملو گے"
تب تُمہیں دیکھ کر میری آنکھیں ایسی ہوں گی"
جیسے صحراؤں میں پلے بچے نے پہلی پہلی بار سمندر دیکھ
ا ہو
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آپ کسی کو آنکھوں میں جگہ دیں ،
اور وہ آپ کو اندھا کر جائے_____!🦋🥀
یہ آرزو ہے کہ میں تجھے خود سے زیادہ چاہوں
میں رہوں یا نہ رہوں میری وفا یاد رکھو گے
مجھے بھیجا تھا دنیا دیکھنے کو
میں ایک چہرے کو تکتا رہ گیا
اور کیا چائیے تمہیں میری محبت کا ثبوت
مجھے تو تمہارے نام کے لوگ بھی اچھے لگتے ہیں
ہمیں اپنی محبت پے اتنا تو یقین ہے
وہ مجھے چھوڑ سکتا ہے مگر بھلا نہیں سکتا
پہلے پیار کرتا ہے پھر اقرار کرتا ہے
محبت بھی انسان اک بار کرتا ہے
تمہیں بتاوں کیا کہ کیا ہے محبت؟
میرے دل کا سکون میری روح کا چین ہے محبت
تیرا مغرور ہو جانا بجا تھا
مجھے تجھ سے محبت جو ہو گئی تھی
پہلے ڈر لگتا تھا موت کے نام سے
اب ڈر لگتا ہے محبت کے نام سے
عجیب ہے یہ محبت کی دنیا
جو دل میں رہتے ہیں وہی درد دیتے ہیں
یہ بھی اک تماشہ ہے عشق و محبت میں
دل کسی کا ہوتا ہے اور بس کسی کا چلتا ہے
ہم سے ملنے میں اک خرابی ہے
پھر کسی اور کے نہیں رہو گے تم
اب نہیں ہو سکتی محبت کسی اور سے
تھوڑی سی تو زندگی ہے کس کس کو آزماتے رہینگے
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﭨﻮﭨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺟﺘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﮨﻮ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺻﺎﻑ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ
تم سے ہی تھی تم سے ہی ہے
محبت جو تھی محبت جو ہے
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
جسے پچھلى محبت کہنا پڑھ جائے
وہ پچھلى بھی محبت نہیں ہوتى
جن کی آپ قدر نہیں کرتے یقین کریں ان کو کچھ
لوگ سجدوں میں رو رو کر مانگ رہے ہوتے ہیں
غزل
1.
محبتوں میں کچھ ایسے بھی حال ھوتے ھیں
خفا ھوں جن سے، انہی کے خیال ھوتے ھیں
مچلتے رہتے ھیں زہنوں میں وسوسوں کی طرح
حسیں لوگ بھی جان کا وبال ھوتے ھیں
تیری طرح میں دل کے زخم چھپاوں کیسے
کہ تیرے پاس تو لفظوں کے جال ھوتے ھیں
بس ایک تو ہی سبب تو نہیں اداسی کا
طرح طرح کے دلوں کو ملال ھوتے ھیں
سیاہ رات میں جلتے ھیں جگنووں کی طرح
دلوں کے زخم بھی محسن کمال ھوتے ھیں
محسن نقوی
2.غزل
دولت ہے بڑی چیز حکومت ہے بڑی چیز
ان سب سے بشر کے لئے عزت ہے بڑی چیز
جب ذکر کیا میں نے کبھی وصل کا ان سے
وہ کہنے لگے پاک محبت ہے بڑی چیز
بس آپ کے نزدیک تو اے حضرت واعظ
آیت ہے بڑی چیز روایت ہے بڑی چیز
پوری نہ اگر ہو تو کوئی چیز نہیں ہے
نکلے جو مرے دل سے تو حسرت ہے بڑی چیز
اے نوحؔ نہ تم اس کو حسینوں میں گنواؤ
یہ خوب سمجھ لو کہ ریاست ہے بڑی چیز
نوح ناروی
3.غزل
ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے
اب جو آرام بہت ہے تو سکوں کچھ کم ہے
رنگِ گریہ نے دکھائی نہیں اگلی سی بہار
اب کے لگتا ہے کہ آمیزشِ خوں کچھ کم ہے
اب ترا ہجر مسلسل ہے تو یہ بھید کُھلا
غمِ دل سے غمِ دنیا کا فسوں کچھ کم ہے
اُس نے دکھ سارے زمانے کا مجھے بخش دیا
پھر بھی لالچ کا تقاضا ہے کہوں، کچھ کم ہے
راہِ دنیا سے نہیں، دل کی گزرگاہ سے آ
فاصلہ گرچہ زیادہ ہے پہ یوں کچھ کم ہے
تُو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو بھلے وقتوں میں
یہ خرابی کہ میں جس حال میں ہوں کچھ کم ہے
آگ ہی آگ مرے قریۂ تن میں ہے فرازؔ
پھر بھی لگتا ہے ابھی سوزِ دروں کچھ کم ہے
احمد فراز
4.غزل
اب بھی تو پاس نہیں ہے، لیکن
اِس قدر دُور کہاں تھا پہلے
ڈیرے ڈالے ہیں بگوُلوں نے جہاں
اُس طرف چشمہ رَواں تھا پہلے
اب وہ دریا، نہ وہ بَستی، نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صَدا دیتا ہے
میں بھی آباد مَکاں تھا پہلے
اُڑ گئے شاخ سے یہ کہہ کے طیُور
سَرو اِک شوخ جواں تھا پہلے
کیا سے کیا ہو گئی دُنیا پیارے
توُ وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے
ناصر کاظمی
5.غزل
بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
داغ دہلوی
6.غزل
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز ميں لايا
ہوئي اسي سے ترے غم کدے کي آبادي
تري غلامي کے صدقے ہزار آزادي
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ايک دم کے ليے
کسي کے شوق ميں تو نے مزے ستم کے ليے
جفا جو عشق ميں ہوتي ہے وہ جفا ہي نہيں
ستم نہ ہو تو محبت ميں کچھ مزا ہي نہيں
نظر تھي صورت سلماں ادا شناس تري
شراب ديد سے بڑھتي تھي اور پياس تري
تجھے نظارے کا مثل کليم سودا تھا
اويس طاقت ديدار کو ترستا تھا
مدينہ تيري نگاہوں کا نور تھا گويا
ترے ليے تو يہ صحرا ہي طور تھا گويا
تري نظر کو رہي ديد ميں بھي حسرت ديد
خنک دلے کہ تپيد و دمے نيا سائيد
گري وہ برق تري جان ناشکيبا پر
کہ خندہ زن تري ظلمت تھي دست موسي پر
تپش ز شعلہ گر فتند و بر دل تو زدند
چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند
ادائے ديد سراپا نياز تھي تيري
کسي کو ديکھتے رہنا نماز تھي تيري
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بني
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بني
خوشا وہ وقت کہ يثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ ديدار عام تھا اس کا
حسن ✍️