:احمد عدنان طارق یہ ملک چین کی لوک کہانی ہے
احمد عدنان طارق یہ ملک چین کی لوک کہانی ہے۔اس وقت وہاں چھوٹے چھوٹے ریچھ نما جانور نہیں پائے جاتے تھے۔جن کا رنگ سیاہ اور سفید ملا جلا ہوتا ہے۔ان جانوروں کو چین میں”زیانگ ماؤ“کہتے ہیں اور ہم انھیں پانڈا کہتے ہیں۔ اُس وقت بانس کے گھنے جنگلوں میں ریچھ رہا کرتے تھے،جن کی کھال سفید اور بہت نرم ملائم تھی اور ایسے چمکتی تھی جیسے آسمان سے گرنے والی نئی نئی برف۔چین میں ان ریچھوں کو”بائی زیانگ“ کہتے تھے جس کا مطلب تھا،سفید ریچھ۔ اس جنگل کے قریب کسی گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھر میں ایک کسان اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ اُس کی ایک ننھی مُنی سی بیٹی چن من تھی۔گرمیوں میں ایک دن چن من اکیلی جنگل کے باہر کھیل رہی تھی۔درختوں کی چھاؤں میں ایسی ٹھنڈک تھی جیسے بہتے ہوئے جھرنے کا پانی اور سبزے پر جگہ جگہ گیندے کے زرد پھول لہرا رہے تھے۔ (جاری ہے) اس نے سوچا یہ سنہرے پھول جنگل میں تھوڑا سا اندر ہی تو اُگے ہوئے ہیں۔ چند لمحوں میں ہی میں تھوڑے سے پھول توڑ لوں گی۔وہ جنگل کے اندر پھولوں کو توڑنے گئی۔جب اس نے پھول توڑ لیے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی ہر طرف ایک جیسی پگڈنڈیاں تھیں۔اُسے بالکل اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کون سی پگڈنڈی اس کے گھر کی طرف جاتی ہے؟ وہ ابھی کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ اُسے پتوں میں سرسراہٹ سنائی دی۔ اُسے ایک معصوم سا جانور نظر آیا جس کے دو بڑے کان تھے۔یہ جنگل میں پایا جانے والا ننھا ہرن تھا۔چن من کو دیکھ کر وہ ڈر گیا اور درختوں کے بیچ بھاگ نکلا۔چن من بھی اُس کے پیچھے بھاگی کہ شاید یہ اُسے گھر کی طرف لے جائے،لیکن وہ جلد ہی اُس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اب تو چن من بالکل ہی راستہ بھول گئی۔اب اُسے ڈر بھی لگنے لگا۔ اسی وقت اُسے ایسی آوازیں آئیں جیسے کوئی درد سے کراہ رہا ہو۔وہ آواز کی طرف گئی،تاکہ جو بھی تکلیف میں ہو،اُس کی مدد کر سکے۔ قریب ہی کانٹوں والی ایک جھاڑی میں کوئی ننھا سا ریچھ کا بچہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنے اگلے پیر کے پنجے کو ہلاتا اور منہ سے سہلاتا۔ وہ ننھا ریچھ بالکل سفید تھا۔وہ تکلیف سے کراہ رہا تھا۔اُس کے پنجے کے تلوے میں ایک کانٹا چبھا ہوا تھا۔چن من نے بہت احتیاط سے کانٹا نکال دیا۔ننھا ریچھ اُس کے ہاتھوں پر پیار سے اپنا چہرہ مس کرنے لگا۔چن من نے بھی ہاتھوں سے اُس کے سر پر پیار کیا۔ اُسی لمحے ایک بہت بڑی سفید مادہ ریچھ غراتی ہوئی تیزی سے درختوں سے نکلی،لیکن جب اُس نے دیکھا کہ اُس کا بچہ ایک ننھی بچی کے ساتھ کھیل رہا ہے تو اُس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔اس نے اپنی تھوتھنی سے پہلے اپنے بچے کو اور پھر چن من کو پیار کیا۔ جیسے وہ بھی اس کی بچی ہو۔وہ سفید مادہ ریچھ اتنی اچھی تھی کہ چن من کو اس سے ذرا بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔وہ آگے بڑھی اور اس نے مادہ ریچھ کے گلے میں اپنی باہیں ڈال دیں اور ٹھنڈی سانس بھر کر بولی:”کاش تم مجھے میرے گھر کا راستہ بتا سکتیں۔ “ اچانک سفید مادہ ریچھ اُٹھی اور چل پڑی۔اس نے چن من اور ننھے ریچھ کو اشارہ کیا کہ وہ اس کے پیچھے آئیں۔جلد ہی چن من نے دیکھا کہ وہ اسے راستہ دکھاتے ہوئے جنگل سے باہر لے گئی۔اس کا گھر وہاں سے نزدیک ہی تھا۔چن من اس دن کے بعد اکثر جنگل میں جانے لگی۔ اس کے ماں باپ خوش تھے،کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ سفید مادہ ریچھ اس کی حفاظت کرے گی۔چن من کو اور بھی بہت سے ریچھ ملے اور ان کے ننھے بچے بھی ،لیکن کانٹے والا بچہ ہی اس کا سب سے قریبی دوست رہا۔وہ اسے ’نیاؤ نیاؤ‘کہتی تھی۔ جس کا مطلب تھا،بہت ہی نرم ملائم ،کیونکہ اس کی کھال بہت نرم اور خوبصورت تھی۔ نیاؤ نیاؤ کی ماں نے چن من کو ایک بہت بڑے درخت کے تنے میں بنا ہوا اپنا گھر بھی دکھایا۔چن من بار بار جنگل میں گئی۔وہ ریچھ کے ننھے بچوں سے کھیلتی اور جنگل کے طور طریقے سیکھتی اور رات ہونے سے پہلے نیاؤ نیاؤ کی ماں حفاظت سے اسے جنگل سے باہر چھوڑ آتی۔ موسم بہار کی ایک سہ پہر کو چن من،نیاؤ نیاؤ کے گھر بیٹھی تھی۔وہ ریچھ کے ننھے بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھ رہی تھی۔اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی خوں خوار جانور بانس کے درختوں میں چھپا بیٹھا ہے ۔پھر اسے ایک سرخ آنکھوں والا چہرہ نظر آیا۔ پیلے رنگ کے لمبے لمبے دانتوں والا خوف ناک چیتا،جس کے چھوٹے چھوٹے کان مڑے ہوئے تھے اور اس کی کھال پر دھبے تھے۔چن من اُٹھ کر چلانے لگی۔وہ ریچھ کے ننھے بچوں کو خبردار کر رہی تھی،لیکن تب تک اسے دیر ہو چکی تھی۔نوکیلے دانتوں اور تیزی سے ہلتی دُم والا بھوکا چیتا نیاؤ نیاؤ پر پل پڑا تھا۔ چن من کے دل میں نیاؤ نیاؤ کے لئے اتنی محبت تھی کہ وہ ڈری نہیں۔اس نے ایک بڑا پتھر اُٹھایا اور زور سے چیتے کو دے مارا۔وحشی جانور نے غصے سے اپنا شکار چھوڑ دیا اور غراتا ہوا چن من پر پل پڑا۔اتنی دیر میں سفید مادہ ریچھ بھی بجلی کی سی تیزی سے وہاں پہنچ گئی۔ چیتا اس کے غصے کو دیکھ کر میدان چھوڑ کر بھاگا،لیکن بھاگتے ہوئے اس نے اپنے نوکیلے پنجوں سے چن من پر وار کیا اور اسے زمین پر گرا دیا۔ نیاؤ نیاؤ کی ماں بھاگتی ہوئی چن من کے پاس آئی اور اسے پیار سے چاٹنے لگی اور کوشش کرتی رہی کہ وہ اُٹھ جائے،لیکن چن من کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی،کیونکہ اس نے اپنی جان دے کر نیاؤ نیاؤ کی زندگی بچا لی تھی۔ پورے جنگل میں اس واقعہ اور چن من کے مرنے کی خبر پھیل گئی۔مشرق،مغرب،شمال اور جنوب کی سمتوں سے بیسیوں میلوں کی دوری سے غم سے نڈھال سفید ریچھ اکٹھے ہو گئے۔وہ روتے ہوئے اپنی دوست کو یاد کر رہے تھے۔وہ بار بار زمین کی مٹی میں اپنے پنجے مار رہے تھے اور انہی سے اپنی آنسو بھری آنکھیں پونچھ رہے تھے ۔ ان کے ایسا کرنے سے آنسوؤں سے گیلی مٹی سے ان کے چہروں پر بڑے بڑے نشان بننے لگے۔پھر انہی پنجوں سے انھوں نے اپنی چھاتیاں غم سے کوٹیں تو ایسے نشان ان کے جسموں پر بھی پڑنے لگے۔ اس دن کے بعد آج تک چین میں سفید ریچھ نہیں پائے جاتے،بلکہ سفید اور سیاہ دھبوں والے چتکبرے ریچھ”زیانگ ماؤ“ہوتے ہیں۔ جنھیں ہم پانڈا کہتے ہیں۔وہ اب بھی چن من کے غم میں نڈھال ہیں۔یہ افسوس ہمیشہ ان کے چہروں پر چھایا رہتا ہے۔