تھوڑا کم چاہنا۔۔
پر مجھے ہی چاہنا♥
تیری آنکھوں کی سہولت ہو میسر جس کو
وہ بھلا چاند ستاروں کو کہاں دیکھے گا
روبرو عشق ہو اور عشق بھی تیرے جیسا
پھر کوئی دل کے خسارے کو کہاں دیکھے گا🖤🕊️🌹
لفظوں کے بھی ذائقے ہوتے ہیں💯
بولنے سے پہلے چکھ لیا کریں🍂
اگر آپ کسی کے مسکرانے کی وجہ ہیں 🫠
تو دنیا میں آپ سے اچھا کوئی نہیں 💯💞
ہم پلٹتے نہیں اب---- بےجان کتابوں کے ورق
ہم وہ پڑھتے ہیں جو 'چہروں پر لکھا ہوتا ہے
کیا پتہ خود سے چھڑی جنگ کہاں لے جائے۔۔
جب بھی یاد اؤں میری جان کا صدقہ دینا۔۔!!
ہم نے تعظیمِ محبت میں جھکایا سر تھا
تم نے یہ فعل غلامی کی علامت سمجھا
اگر تیرا سوال ھوتا کہ سکون کیا ھے
ھم مسکرا کر تیرے سینے پہ سر رکھ دیتے
🖤🦋:سنو زندگی
ہم تیرے عشق میں اس مقام پر آچکے ہیں
جہاں تیرے سوا کسی اور کو دیکھنا بھی گناہ ہے 🥀 🦋
✨
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن۔۔
چھو کر دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے۔۔
راہِ عشق میں واپسی کے راستے نہیں رہتے _!!
جو اس راہ میں بھٹک جائیں وہ کہیں کے نہیں رہتے _!!
محبتوں میں دوریاں کوئی معنی نہیں رکھتیں _!!
دل جو دل کے قریب ہوں تو فاصلے نہیں رہتے _!!
محبت خود ہی سکھا دیتی ہے راضی با رضا ہونا _!!
جب عشق کامل ہو جائے تو پھر گلے نہیں رہتے__
تھی شام زہر رنگ میں ڈوبی ہُوئی کھڑی
پھر اِک ذرا سی دیر میں ، منظر بدل گیا
مدّت کے بعد ــــ آج اُسے دیکھ کر ”مُنیرؔ“
اِک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
حسن:شاعر✍🏻
جس کے حصّے میں یار تُو آیا
یہ اَرض و سَما اُسّی کے ہیں
🦋🖤
"میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب
اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے"۔
جندڑی میتھوں نبھدی نئیں
اک واری فیر پال نی مائیں
ایک تاریخ مقرر پہ تُو ہر ماہ ملے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے
اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے
ہے حسن کا فسوں بھی علاج افسردگی
رخ سے نقاب ہٹا کہ طبیعت اداس ہے۔
توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر اے عدم
تھوڈا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے۔
"بہترین یادیں وہ ہیں،
جہاں ہم نے بدلے میں کسی کی توقع کیے بغیر کسی کی مدد کی ہو ۔،
🌸
میں خود کو چھوڑنے کیلئے__!!
ریلوے سٹیشن گیا __!!
آخری گاڑی جا چکی تھی__!!
میں نے خود کو بنچ پر بٹھایا__!!
اور پانی لینے کے بہانے سٹیشن سے باہر نکل گیا __!!
پھر کبھی مڑ کر نہیں دیکھا__!!
کوئی نہیں جانتا __!!
اس کے بعد میں کہیں گیا بھی__!!
یا وہیں بنچ پر بیٹھا __!!
اپنے آنے کا انتظار کرتا رہا__!!
سُنا ہے اب کِسی کو بھی سَزا مِلنا نہیں مُمکِن
ہمیں کُچھ تو بتا اے گَرْدِشِ اَیّام کیا ہو گا؟
سُنا ہے غاصِبوں نے رَہْزَنوں سے دوستی کر لی
خُدا ہی جانے اب اِس مُلک کا اَنْجام کیا ہو گا؟
(مرزا رضی اُلرّحمان)
غزل
دوش دیتے رہے بیکار ہی طغیانی کو
ہم نے سمجھا نہیں دریا کی پریشانی کو
یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو
بے گھری کا مجھے احساس دلانے والے
تو نے برتا ہے مری بے سر و سامانی کو
شرمساری ہے کہ رکنے میں نہیں آتی ہے
خشک کرتا رہے کب تک کوئی پیشانی کو
جیسے رنگوں کی بخیلی بھی ہنر ہو اظہرؔ
غور سے دیکھیے تصویر کی عریانی کو
اظہر فراغ
غزل
تِری نگاہ نے اِتنا تو کر دیا ہوتا
غمِ حیات میں کچھ رنگ بھر دیا ہوتا
اب آپ کِس لئے اِتنے ملُول ہوتے ہیں؟
دیا تھا رنج تو کچھ سوچ کر دیا ہوتا
کوئی سلُوک تو ہم کو بھی یاد رہ جاتا
کوئی فریب تو جی کھول کر دیا ہوتا
شبِ فراق اور اِتنی دراز! اے پیارے
دراز تھی تو سَحر خیز کر دیا ہوتا
خِرد سے کام نہ لیتے عدمؔ اگر ہم لوگ
غمِ حیات نے برباد کر دیا ہوتا
سیّد عبدالحمید عدم
غزل
بکھرتے رابطوں کا ہے ، بچھڑتے راستوں کا ہے
دسمبر نام ہے جس کا مہینہ حادثوں کا ہے
کہیں ہے آس کا بادل کہیں یادوں کی بوندیں ہیں
مچلتی خواہشوں کا ہے ، یہ موسم بارشوں کا ہے
وہی مے کش ہوائیں ہیں وہی گم صم فضائیں ہیں
مری پُر امن دنیا میں یہ موسم سازشوں کا ہے
پرانے عارضے سارے ، امڈ آئے ہیں آنکھوں میں
یہ موسم ہے سرابوں کا یہ موسم وسوسوں کا ہے
وہی سب رت جگے ابرک ، وہی تیرے گلے ابرک
کہ اُس کے بعد بھی ہر پل اُسی کی وحشتوں کا ہے
اتباف ابرک
غزل
میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے
یہ پرندے مجھے پاگل نہیں ہونے دیں گے
تو خدا ہونے کی کوشش تو کرے گا لیکن
ہم تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے
یہ جو چہرہ ہیں یہاں چاند سے چہرہ تابشؔ
یہ مرا عشق مکمل نہیں ہونے دیں گے
عباس تابش
غزل
دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے
تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے
عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں ہے
بکھر چکا ہے مگر مسکرا کے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے
جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
وہ اک مکان ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے
یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سال گرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے
پروین شاکر
Amazing Post
ReplyDelete