مدتیں گزر گئیں حساب نہیں کیا۔۔۔
نا جانے کس کے دل میں کتنے رہ گئے ہم!
1.
تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیلؔ اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے
قتیل شفائی
2.
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
اس سے میرا مۂ خورشید جمال اچّھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے
ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ جس کا کہ میٰل اچّھا ہے
خضر سلطاں کو رکھے خالقِ اکبر سر سبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچّھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
مرزا غالب
3.
بہ رنگ نغمہ بکھر جانا چاہتے ہیں ہم
کسی کے دل میں اتر جانا چاہتے ہیں ہم
زمانہ اور ابھی ٹھوکریں لگائے ہمیں
ابھی کچھ اور سنور جانا چاہتے ہیں ہم
اسی طرف ہمیں جانے سے روکتا ہے کوئی
وہ ایک سمت جدھر جانا چاہتے ہیں ہم
وہاں ہمارا کوئی منتظر نہیں پھر بھی
ہمیں نہ روک کہ گھر جانا چاہتے ہیں ہم
ندی کے پار کھڑا ہے کوئی چراغ لیے
ندی کے پار اتر جانا چاہتے ہیں ہم
انہیں بھی جینے کے کچھ تجربے ہوئے ہوں گے
جو کہہ رہے ہیں کہ مر جانا چاہتے ہیں ہم
کچھ اس ادا سے کہ کوئی چراغ بھی نہ بجھے
ہوا کی طرح گزر جانا چاہتے ہیں ہم
زیادہ عمر تو ہوتی نہیں گلوں کی مگر
گلوں کی طرح نکھر جانا چاہتے ہیں ہم
والی آسی
4.
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
اک بھیک کے دونوں کاسے ہیں اک پیاس کے دونو پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں تم بادل ہو ہم ندیاں ہیں تم ساگر ہو
یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نا گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم ہو کوئی نشتر ہو
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندرماں
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیوں کر ہو
اب حسن کا رتبہ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو
جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو
اب انشاؔ جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن اور رات برابر ہو
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
ابن انشا
5.
نظر نہ آئے ہم اہل نظر کے ہوتے ہوئے
عذاب خانہ بدوشی ہے گھر کے ہوتے ہوئے
یہ کون مجھ کو کنارے پہ لا کے چھوڑ گیا
بھنور سے بچ گیا کیسے بھنور کے ہوتے ہوئے
یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے کیا ہے
یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے
تو اس زمین پہ دو گز ہمیں جگہ دے دے
ادھر نہ جائیں گے ہرگز ادھر کے ہوتے ہوئے
یہ بد نصیبی نہیں ہے تو اور پھر کیا ہے
سفر اکیلے کیا ہم سفر کے ہوتے ہوئے
حسیب سوز
6.
لوگوں کے لیے صاحبِ کردار بھی میں تھا
خوُد اپنی نگاہوں میں گُنہگار بھی میں تھا
کیوں اب مِرے مَنصب کی سلامی کو کھڑے ہو
یارو! کبھی رُسوا سرِ بازار بھی میں تھا
میں خوُد ہی چُھپا تھا کفِ قاتل کی شِکن میں
مقتوُل کی ٹوُٹی ہُوئی تلوار بھی میں تھا
میری ہی صدا لَوٹ کے آئی ہے مُجھی تک
شاید حدِ افلاک کے اُس پار بھی میں تھا
منزل پہ جو پہنچا ہُوں تو معلوم ہُوا ہے
خوُد اپنے لیے راہ کی دیوار بھی میں تھا
اب میرے تعارف سے گُریزاں ہے توُ، لیکن
کل تک تِری پہچان کا معیار بھی میں تھا
دیکھا تو میں اَفشا تھا ہر اِک ذہن پہ محسنؔ
سوچا تو پسِ پردہء اسرار بھی میں تھا
محسن نقوی
7.
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
مرزا غالب
8.
تِری نگاہ نے اِتنا تو کر دیا ہوتا
غمِ حیات میں کچھ رنگ بھر دیا ہوتا
اب آپ کِس لئے اِتنے ملُول ہوتے ہیں؟
دیا تھا رنج تو کچھ سوچ کر دیا ہوتا
کوئی سلُوک تو ہم کو بھی یاد رہ جاتا
کوئی فریب تو جی کھول کر دیا ہوتا
شبِ فراق اور اِتنی دراز! اے پیارے
دراز تھی تو سَحر خیز کر دیا ہوتا
خِرد سے کام نہ لیتے عدمؔ اگر ہم لوگ
غمِ حیات نے برباد کر دیا ہوتا
سیّد عبدالحمید عدم
9.
میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے
یہ پرندے مجھے پاگل نہیں ہونے دیں گے
تو خدا ہونے کی کوشش تو کرے گا لیکن
ہم تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے
یہ جو چہرہ ہیں یہاں چاند سے چہرہ تابشؔ
یہ مرا عشق مکمل نہیں ہونے دیں گے
عباس تابش
10.
سنا ہے کہ ان سے ملاقات ہوگی
اگر ہو گئی تو بڑی بات ہوگی
نگاہوں سے شرح حکایات ہوگی
زباں چپ رہے گی مگر بات ہوگی
مرے اشک جس شب کے دامن میں ہوں گے
یقیناً وہ تاروں بھری رات ہوگی
سمجھتی ہے شام و سحر جس کو دنیا
ترے زلف و عارض کی خیرات ہوگی
نہ ساون ہی برسا نہ بھادوں ہی برسا
بہت شور سنتے تھے برسات ہوگی
محبت بہت بے مزا ہوگی جس دن
زباں بے نیاز شکایات ہوگی
وہاں قلب کی روشنی ساتھ دے گی
جہاں دن نہ ہوگا فقط رات ہوگی
نذیرؔ آؤ رو لیں گلے مل کے ہم تم
خدا جانے پھر کب ملاقات ہوگی
نذیر بنارسی
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور اگلا 👇بلاگ پڑھیں
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں
مدتیں گزر گئیں حساب نہیں کیا۔۔۔
میری پسند کے معیار کو نہ سمجھ پاؤ گے