لوگ اپنے بن کر چھوڑ جاتے ہیں
رشتہ غیروں سے جوڑ لیتے ہیں
ہم تو اک پھول بھی نہ توڑ سکے
لوگ تو دل بھی توڑ دیتے ہیں
خوشی سے دل کو اباد کرنا
اور غم کو دل سے ازاد کرنا
ہماری بس اتنی گزارش ہے کہ
ہمیں بھی دن میں ایک بار یاد کرنا
خوشی کم ہے تیرا غم بلانے کے لیے
ایک غم ہی کافی ہے مجھے عمر بھر رلانے کے
لیے
تیری دوستی ہم اس طرح نپائیں گے تم روز خفا
ہونا ہم روز منائیں گے
تیرا مان جانا منانے سے
ورنہ یہ بھیگی پلکیں لے کر کہاں جائیں
گے
غزل
ان کے انداز کرم ان پہ وہ انا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا
عمر گزری ہے مگر درد نہ جانا دل کا
دل لگی دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یا رب نہ لگانا دل کا
وہ بھی اپنے نہ ہوئے دل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے انے سے تو بہتر ہے نہ دل کا
ان کی محفل میں نصیر ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
غزل
زندگی میں نصاب پائے
غموں دکھوں کے حساب پائے
خوشی کی ٹہنی پہ جھومتے ہیں
خیال بھی کیا خراب پائے
کسی سے شکوہ جو کرنے بیٹھے
سوال سارے لاجواب پائے
پیروں نے زمین کو دور پھینکا
نقاب جب بے نقاب پائے
میری نادانی کو کون سمجھے
ہر طرف تو نواب پائے
مجھ کو انصاف کم ملا ہے
خوشی بھی مانگی عذاب پائے
غزل
میرا ہر لمحہ جو تیرے پاس
ہوتا ہے
سارے
اوقات میں بس وہی خاص ہوتا ہے
دل مایوس یوں مانوس ہو
گیا تم سے
جیسے ہر وقت تو میرے اس
پاس ہوتا ہے
میں تو سج دھج کے
بھی ماند پڑتا ہوں
وہ اچھا لگتا ہے جب کہ
سادہ لباس ہوتا ہے
جب منسوخ کرتا ہوں تبھی
منسوب ہوتا ہے
میں ہوتا ہوں اور اک
تیرا قیاس ہوتا ہے
اتنی ہے پرکشش چشم یار
کہ کیا کہوں
قدرت کا یہ تحفہ بہت ہی
خاص ہوتا ہے
دشت وحشت شب ہجرہ درد غم
فراک
وہ لٹتا ہے جو تیرا شناس
ہوتا ہے
غزل
جب گھنے تھے تو زمانے کے
کام ائے
جب سوکھے تو جلانے کے
کام ائے
میں ساقی تو نہیں ہوں
شاید میرا یہ جام
تیرا دل بہلانے کے کام
ائے
لوٹ جا راستہ پرخطر
ہے عشق کا
شاید میرا یہ جملہ تجھے
سمجھانے کے کام ائے
دیکھ چکے ہو ساری دنیا
میں اہل وفا
اخر ہم ہی رسم محبت
نبھانے کے کام ائے
اخری تمنا ہے ساحل کی کہ
تیرا ہاتھ
قبر پہ میری پھول چڑھانے
کے کام ائے
https://link2fakhar.blogspot.com/2022/09/digital-marketing-course-in-urdu-pdf.html
ReplyDelete